حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کےسربراہ علامہ محمد امین شہیدی نےسیالکوٹ میں فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل کو افسوس ناک اور انتہائی سنگین جرم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے مسئلہ کو نچلی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ایسے واقعات کے بعد عمومی طور پر صاحبانِ اقتدار و اختیار اور علماء کرام مذمتی بیانات دیتے ہیں اور پھر چنددن کے شور کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے، گویا سب نے اپنا فرض ادا کردیا ہو۔اس قسم کی درندگی اور بربریت کو روکنا اسی صورت ممکن ہےجب ریاست اپنی موجودہ پالیسیوں کوترک کرےگی۔ہمارےملک میں چالیس سال قبل وہ دور تھاکہ جب یہاں کا معاشرہ متوازن تھا۔ہندو،مسلم،سکھ اورعیسائی ایک ہی محلہ میں رہتےہوئے بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھےہوئےتھے۔لیکن گذشتہ ہفتہ سیالکوٹ میں جو ہوا،وہ عدم برداشت کی بدترین مثال تھی۔
انہوں نے کہا کہ فیکٹری مینیجر پریا نتھا کمارا پر تشدد کرنے اور اسےقتل کرنے والے افراد میں زیادہ تر تعداد جوانوں کی تھی۔اگر ہمارے ملک کا جوان آج انتہا پسندی کی اس نہج پر پہنچ چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ ہماری ریاستی پالیسیاں اس طرح کی ہیں جنہوں نے ہمیں من حیث القوم انتہا پسند بنا دیا ہے۔پچھلےچالیس برسوں میں ہم نے ملاحظہ کیاکہ ریاست ،سیاسی حکومتوں اور صاحبانِ اقتدار و اختیار نے انتہا پسندی کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئےاستعمال کیا۔ملااِزم،علماء اور قلم کاروں کو آلہ کار بنایا اور یہ سب اس بات سے بےخبر رہے کہ ان کے وقتی اقدامات کے نتیجہ میں ایک انتہا پسند نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت دنیا میں نصف سے زائد تعداد میں اسلامی ممالک ہیں لیکن وہاں پرتوہینِ مذہب کےنام پر انتہا پسندی کا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا۔سوال یہ ہےکہ ایسے مسائل بالعموم پاکستان میں ہی جنم کیوں لیتےہیں؟دوسری بات یہ کہ اس طرح کےواقعات میں ملاجلارجحان ہے۔کچھ کیسزمیں واقعتا توہینِ رسالت ہوئی اورکچھ کیسزمیں اِسی عنوان سے ذاتی دشمنی کی بنیاد پرقتل ہوئے۔سوال یہ ہےکہ توہینِ رسالت اورذاتی دشمنی کی بنیاد پر کیےجانے والےقتل کے نتیجہ میں مجرموں کو کیا سزادی گئی؟ اگر مجرموں کےخلاف ٹھوس قانونی کارروائی نہ کی گئی اوران کو کیفرِ کردار تک نہ پہنچایا گیا تو پھر مستقبل کےحوالہ سےیہ امیدنہ رکھی جائے کہ صورتحال بہترہوگی۔انتہا پسندی چاہے مُلااِزم کی شکل میں ہو یا لبرل ازم کی شکل میں،اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
آخر میں کہا کہ اس طرح کےجرائم کا ارتکاب کرنے والے شرعی اور قانونی طور پر جس سزا کے مستحق ہیں،ان کو انصاف کےکٹہرے میں کھڑا کرکے جلد از جلد سزا سنائی جائے۔اگرکوئی توہینِ مذہب کے غلط استعمال اور لوگوں کے جذبات کا استحصال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے تو اُس کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو توہینِ مذہب کرنے والےکو دی جاتی ہے۔ایسے کم سےکم دس کیسز میں بھی مجرم کو سزادی جائے تو انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی۔